Sunday, 6 December 2020

Qirat Khan Travelogue

To be checked

1200 words

No photos

No fullstop any where

 Qirat khan-2k20/MMC/42-Travelogue 


قرات خان 

رول نمبر: 42

ایم اے پریویز

مری کا یادگار سفر  

پاکستلن کی جنت نظیر وادیوں کا ذکر تو بہت سنا اور پڑھا تھا مگر بدقسمتی سے کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا عجیب اتفاق کی بات ہیاور قدرت کی مہربانی تھی کہ مجھے مری دیکھنے کا موقع ملا ہوا کچھ یوں کہ میرے خالو اورچچا جان میں ایک نشست میں یہ طے پایا  کہ کیوں نہ اکتوبر کے مہینے میں پاکستان کے خوبصورت مقامات کی سیر کی جائے  جب خالو کی کال آئی اور مجھ سے پوچھا کہ مری چلنے کا کیا ارادہ ہے میں نے جھٹ سے ہاں کر دی اس طرح میں اور میری چھوٹی بہن, میرے خالو کی فیملی،اور چچا کی فیملی نے مری جانے کی تیاریاں شروع کر دیں.

پھر بالآخر 21 اکتوبر کا وہ دن بھی آگیا جس میں روانگی تھی ٹرین کی روانگی کا ٹائم ٹھیک شام 6 بجے کا تھا میں اور میری بہن ہم اپنی فیملی کے ساتھ اسٹیشن پر فیکس تین بجے پہنچ گئے. کراچی سے میرے خالواور چچا کی فیملی ٹرین میں آ رہی تھی  ہر آنے والی ٹرین کو ایسی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے وہ ہماری ٹرین آرہی ہو دیکھتے دیکھتے 6 بج گئے اور ہماری ٹرین آگء ہم ٹرین میں سوار ہوئے اور امی ابو کو اللہ حافظ کہا اور ٹرین میں بیٹھ گئے حیدرآبادسے لاہور  تک کا یہ سفر تقریبا 17 گھنٹے کا تھا اور اس کا ایک ایک منٹ یادگار تھا ہم سب کھڑکی کے باہر مقامات کو دیکھ رہے تھے اور بھرپور لطف اندوز ہو رہے تھے ٹرین کا  یہ سفر میری زندگی کا پہلا سفر تھا قصہ مختصر لاہور اسٹیشن آگیا 22 اکتوبر دوپہر بارہ بجے ہم لاہور اسٹیشن پہنچ گئے  

لاہور پہنچتے ہی قریب ہی کسی ریسٹورینٹ رک کر کھانا کھایا اور آگے مری کے سفر کے لیے ایک ٹویوٹا ہائی ایس کو ہم نے اپنی مری جانیکیلیے بک کرلیا لاہور سے مری کا سفر 7گھنٹے کا تھا جوں جوں مری قریب آتا گیا ٹھنڈ میں اضافہ ہوتا گیا دانت بجنا شروع ہوگئے  ہوٹل پہنچتے ہی دل باغ باغ ہو گیا ہمارے ہوٹل کے چاروں کمرے بہت خوبصورت تھے تمام میں ٹی وی اور عمدہ فرنیچر تھا اور ٹھنڈ اتنی تھی کے کمرے میں رکھی پانی کی بوتل کو ہاتھ لگانے سے ہاتھ کانپ رہے تھے ٹوائلٹ بھی نہایت کشادہ اور صاف ستھرے تھے 

ا 

طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں ایوبیہ مال روڈ جانا تھا ہم کار میں بیٹھے اردگرد کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے یہ بھی قدرت کی خوب  کاریگری تھی پہاڑوں کا پھیلاؤ اور درختوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کہیں دور برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ یہ سب میں پہلی بار دیکھ رہی تھی راہیں اتنی خوبصورت حسین  ہو تو واقعی منزل کی پرواہ کون کرتا ہے مال روڈ سیاحوں سے بھرا ہوا تھا اور اردگرد کا ماحول دیکھ کر وقت کا اندازہ نہیں ہوتا تھا سیاحوں میں ہر طرح کے لوگ تھے کچھ دوستوں کے گروپ تھے  کچھ نئے نئے جوڑے جنہیں ایک نظر دیکھ کر ہی نئے پن کااندازہ ہو جاتا تھا ہاتھوں میں ہاتھ ادائیں ناز نخریاور معنی خیز مسکراہٹیں وہ ان لمحوں کو خوب انجوائے کر رہے تھے

مال روڈ کی ایک دکان پر مجھے جیکٹ اچھی لگی میں نے اس کی قیمت پوچھی  تو دکاندار نے 5000 کی قیمت بتائیں اور پھر کہا 

حیدرآباد کی لگتی ہو 

میں نے حیرانی سے دکاندار کو دیکھا اور کہا 

ہاں بالکل صحیح پہچانا

میں نے پوچھا آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ ہم حیدرآباد سے ہیں  

کہنے لگے آپ لوگوں کی اردو بہت صاف ہوتی ہے جس سے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ حیدرآباد یا  کراچی سے ہوں 

اس طرح کے واقعات ہمارے ساتھ بے شمار ہوئے کے ابھی زبان سے کچھ ادا ہی کیا کہ حیدرآباد ہونے کی مہر لگ گئی 

ایوبیہ میں ہم نے سفید گھوڑے پر سواری کی یہ میری بچپن کی خواہش تھی جو ایوبیہ میں پوری ہوگی یہی نہیں بلکہ چیئر لفٹ میں بیٹھنے کا خواب بھی پورا ہوگیا 

اگلے دن صبح جلدی اٹھ کر گاڑی میں بیٹھے اور کشمیر آبشار کی طرف رواں دواں ہوئے آبشار دیکھتے ہی ہمارے ہوش اڑ گئے کیا حسین اپشار تھا سیاحوں کے لیے ان لوگوں نے پانی میں میز اور کرسیاں لگائی ہوئی تھی پتھروں کے درمیان بہتے ہوئے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے کرسی پر بیٹھ کر گرم گرم چائے پی اور ساتھ  پکوڑوے بھی کھائے یہ ماحول نہ قابل فراموش تھا شام قریب تھی چنانچہ ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا اور بالاکوٹ کے ہوٹل میں پہنچ گئے 

ہمارا قیام ہوٹل کی دوسری منزل پر تھا جس میں ہم نے تین کمرے بک کیے تھے جس کے ساتھ بڑا ٹیرس  تھا اور نیچے بار بی کیو کے لئے گھاس پر انتظام تھا ہوٹل بلکل پہاڑوں کے سامنے تھا رات کو جب ٹیرس پہ کھڑے ہوئے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور ہاتھ میں ں کافی کا کپ لیکر لطف اندوز ہوئے 

صبح ایک خوبصورت پرندہ جس کے سر پر تاج تھا جگانے آیا جی ہاں اس نے صبح صبح کمرے کی کھڑکیوں کے شیشوں پر اپنی چونچ مارنا شروع کر دی یہ ایک حیران کن بات تھی اس پرندے کی جگانے پر میں?ٹھ گء اور ٹیرس پر چلی گی کیا خوبصورت اور دلفریب منظر تھا ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا 

آج ہم یہ شہانہ انداز میں سفر کر رہے تھے دنیاوی پریشانیوں سے اتنا ہی دور تھے جتنا حیدراباد سے.راستیمیں جہاں چائے کی طلب ہوء گاڑی رکوائی اور چائے پی کر ہی دم لیا جہاں کوئی نظارہ اتنا حسین لگا کے دل چاہا  تصویر کشی کی جائے وہی گاڑی رکواکر یہ حسرت بھی پوری کی


اگلے دن ہماری منزل وادی کاغان تھی وہی جنت نظیر وادی جس کا بچپن میں سن رکھا تھا وادی کاغان کا حسین ترین مقام ناران ہے جسکے صرف

 ایک گھنٹے کی مسافت پر مشہور زمانہ جھیل سیف الملوک واقع ہے ہماری وین راستہ طے کر رہی تھی اور ہم سب خوبصورت نظاروں کے سحر میں جکڑے ہوئے تھے راستے بھر ایسی وادیاں اء کیپکار اٹھے اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گئے ہر طرف سبزہ اور درجنوں مقامات پر قدرتی پانی کے چشمے اور آبشار بہے رہے تھے پہاڑوں کے اوپر سے گرتے ہوئے یہ ابشار انتہاء دلفریب منظر پیش کر رہے تھے  ناران پہنچے تو ایک ریسٹورینٹ میں قیام کیا ہوٹل کا محل وقوع نہایت خوبصورت دلفریب تھا ناران سالہا سال ٹھنڈا رہتا ہے 


اگلے دن جب سیف الملوک کے لئے سفر شروع کیا تو ہم نے دو جیپیں کی راستہ ہمارے اندازوں سے بھی زیادہ خراب نکلا سڑک نام کی کوئی چیز نہیں تھی خدا خدا کر کے جھیل سیف الملوک پہنچے تو جو منظر ہمارے سامنے تھا اس نے سفر کی ساری تھکن دور کر دی ایک انتہاء خوبصورت جھیل ہماریسامنے تھی جھیل سیف الملوک کے بارے میں مختلف باتیں مشہور ہیں مثلا وہاں چاندنی راتوں میں پریاں اتی ہیں ایسا دلکش منظر ہم نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا یہاں جھیل ایک پیالے کی صورت میں نظر آئی جس کے چاروں طرف پہاڑ تھے اور وہ بھی بیشتر برف سے ڈھکے ہوئے تھے جھیل کے پانی پر بھی جابجا برف نظر آ رہی تھی جس کی وجہ سے منظر بے انتہا خوبصورت تھا آگے بہت سارے لوگ برف پر سلائیڈ  کر رہے تھے ہم نے وہاں کشتی رانی بھی کی اندھیرا ہونے سے پہلے ہم لوگ اپنے ہوٹل ناران میں پہنچ گئے 

آج ہمارا یہاں آخری دن تھا ریلوے اسٹیشن کی طرف رواں دواں تھے پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ہم حیدرآباد اسٹیشن پر موجود تھے واپسی کا سفر بہت اداس گزرا یہاں پھر وہی گرمی تھی چارنومبرکو ہماری واپسی ہوئی اور اس طرح یہ انتہائی خوبصورت سفر اختتام پذیر ہوا  

No comments:

Post a Comment