Saturday, 5 December 2020

Isra Soomro Travelogue

 No photo - Travelogue

 حیدر آباد تا ملتان

Isra Soomro

MMC/2K20   Roll#23

آج کی تاریخ ہے 16 نومبر 2020پر جو کہانی میں لکھنے جا رہی ہوں وہ میری27 فیبروری 2013 کے 10 پرمشتمل ہے۔ میں اپنے گھر والوں کہ ہمراہ راولپنڈی کے جڑواں شہر اسلام آباد جا رہی ہوں، آج تاریخ ہے 26 فیبروری اور مزے کی یہ بات ہے کہ آج ہماری کراچی تا راولپنڈی کی ٹکٹ آنی ہیں۔ ارے! آپ بھی سوچ میں پڑ گئے ہوں گے مضمون کا نام تو حیدرآباد تا ملتان ہے؟صبر کریں بتاتی ہوں بتاتی ہوں،دیوہ والوں کی یہ سروسچلتی تو کراچی سے ہے لیکن،ہماری رہائش حیدرآباد ہے توہم حیدرآباد سےسوار ہوں گےاور اس سفر نامے کا نام ”حیدر آباد تا ملتان“ ہے۔ یہ بھی بڑا قصہ ہے کیا یہ سفر سے ملتان تک کیوں چلا جبکہ راولپنڈی جانا تھا آہستہ آہستہ سب پتہ چل جائے گا صبر کیجئے۔

شام کے ساڑھے چھ بج گئے ہیں، لیکن ابھی بھی بابا کے آنے میں آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ ہرے سات بج گئے ابھی گھنٹی بجے گی اور بابا آ جائیں گے۔ ینگ ٹونگ! لو جی بابا آ گئے دروازہ کھولو بھاگو، ہائی میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں، نظر جب بابا کے ہاتھوں پر گئی تو دل خوشی سے اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر ای۔ آگئی ٹکٹس شکر الحمداللہ۔

چلے جی رات کے بج گئے 12 نیا دن شروع ہوا ہمارا، خوشی سے نیند ہی نہیں آرہی شام کو چار بجے ہے ہماری سواری۔ اماں سے پوچھا ابّا نے  ”تیاری پوری ہے تمہاری؟“ اماں نے کہا ”ایک ایک چیز پیک کر ڈالی“۔

شام کے 3 بجے سارا سامان گاڑی کے اندر، انتظار کی گھڑیاں بڑی مشکل۔ اتنے میں آواز آتی ہیں کہ ”کراچی تا راولپنڈی اپنے حیدرآباد ٹرمینل پر پہنچ چکی ہیں برائے مہربانی مسافر روانگی کے لئے تیار ہوجائے، حیدرآباد ٹرمینل پر کراچی تا راولپنڈی صرف پندرہ منٹ کے لیے رکے گی برائے مہربانی اپنے سامان کی خود  تصدیق اور خیال کیجئے شکریہ“  ہائے کیا تو یہ جملے تھے دل تو خوشی سے ہی نہیں سما رہا تھا،کل تک جس بات کا خوف تھا کہ ہم جائیں گے کہ نہیں جائیں گے اب تو بس ہم بس میں سوار ہونے لگے ہیں۔‌ اس بس سروس کا ٹرمینل ھالا ناکہ روڈ پر مشتمل تھا، ہم لوگ ہو گئے سوار بس میں اتنے میں بس ہوسٹرس نے اعلان فرمایا ”اسلام علیکم! ہمارا آگے کا سفر تین گھنٹے 15 منٹ کا رہے گا اور ہمارا اگلا سٹاپ مورو ٹرمینل ہے“ میرے برابر میں بیٹھی ہوئی عورت بڑی ہی پیاری تھیں تو خیال آیا کہ میں ان سے پوچھ لو ”کیا آپ پشاور کی ہیں ”تو وہ حسیں اور کہنے لگی نہیں نہیں میں  حیدرآباد کی ہوں،اور رحیم یارخان جا رہی ہوں نوکری کے سلسلے میں“ یہ جان کر مجھے بڑا تعجب ہوا کہ ہمارے سندھ کی لڑکیاں بھی اتنا دور جاتی ہیں نوکری کیلۓ۔

 شام کے پانچ بجے، آسمان سرخ جیسے کہآگ لگی ہوئی ہو پرندے اپنے گھروں کی جانب روانگی کر رہے ہیں اور ہم ہمارا آگے کا سفر مورو کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میرا شاید بڑے ہونے کے بعد پہلا سفر ہے تو مجھے بڑی ایکسائٹمنٹ ہے۔ بچپن میں میں نے گھومنا ہے پر بڑا پن کا پہلا سفر ہے۔سفر میں تو مجھے نیند نہ آنے سے رہی تو چلے روڈ کی ہی آپ کو تفصیل دیتی ہوں، روڈ تو سادہ سا ہے پر سفر کا ہے تو بڑا ہی منفرد لگ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم رکے ہوئے ہیں اور یہ چل رہا ہے۔ دونوں طرف سے ہریالی ہی ہریالی ہے سبز کھیت چمک رہے ہیں۔پیڑوں پہ پرندوں کے گھونسلے ان میں پرندے میں طوطےچہچکا رہے ہیں۔یہ منظر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا مورو ٹر مینل آگیا۔ یہاں پر اب  ہمارا سٹاک ١٥ منٹ کا ہے۔

ہماری بس تیار روانگی کے لئے، اتنے میں بس ہوسٹس کی آواز آتی ہے” السلام علیکم! ڈیوو بس سروس کی جانب سے آپ سب کو خوش آمدید، ہمارا اگلا سٹاپ سکھر ٹرمینل ہے اور آگے کا سفر 3 گھنٹے پر مشتل ہےشکریہ“۔ شام کے سات بج چکے ہیں کب کے اور اندھیرا ہو چکا ہے سمجھ نہیں آرہا اب باہر دیکھو تو کیا دیکھوں تو کیا دیکھوں نظر تو کچھ نہیں آنا، اتنے میں اپنی سیٹ کی جانب دیکھا تو اس میں دو سراخ تھے جو کہ اکثر فون میں ہوتے ہیں اور ہینڈ فری کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اور ایک بٹن تھا جو کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس لئے ہے اور بس بچپنے میں دبا دیا۔ابھی میں یہ سب دیکھ ہی رہی تھی کہ اتنے میں بس ہوسٹسر آئ اور مجھ سے پوچھنے لگی”جی میڈم میں آپ کی کیسے مدد کر سکتی ہوں“ ارے بھائی! میں تو پریشانی ہوگی ان کو کب بلایا  ان کو؟ تھوڑی ججک کے ساتھ میں نے ان سے  کہہ دیا ”میں نے تو نہیں بلایا آپ کو“تو انہوں نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ کہا میم یہ جو بٹن آپ نے پریس کیا ہے وہ بس ہوسٹسر کو بلانے کے لیے پریس کیا جاتا ہے“۔

سفر شروع ہوئے صرف آدھا گھنٹہ ہوا ہے نہ باہر کچھ نظر آرہا ہے اور اندر بیٹھے لوگ بھی کوئی مزے دار نہیں لگ رہے مجھے۔برابر والی خاتون بھی سو رہی ہیں اب کیا جائے؟ ہم نے نکالی ہینڈ فری جو سیٹ میں دو سراخ تھے  اس میں ٹرائی کیا، ایک تو ریڈیو کا تھا اور دوسرا سامنے لگی ہوئی ٹیلی ویژن اسکرین کے لئے تھا۔یہ لو حیدرآباد ٹرمینل سے میں یہی سوچ رہی تھی کہ یہ گونگی  ٹی وی کیوں چل رہی ہے اب جا کے معلوم چلا کہ اس کی آواز کیسے آئے گی ہمارے کانوں میں ہا ہا ہا۔ فلمیں دیکھتی نہیں ہوں میں، چلو ریڈیو ہی سن لیتے ہیں۔ایک اچھا عرصہ گزرا ریڈیو سنے بڑا ہی لطف دے رہا ہے ریڈیو کو سننا اتنے عرصے کے بعد۔ ریڈیو سنتےسنتے بہار دیکھتے دیکھتے چلو ہم پہنچ گئے ہیں اپنے اگلے ٹرمینل جو کہ سکھر۔

سکھر ٹرمینل پر بھی ہمارا پندرہ منٹ کا سٹاپ تھا  سچی جانے آدھی رات ہو چکی تھی اور یہ ٹرمینل انتہائی بے کار بنا ہوا تھا تو پندرہ منٹ آدھا گھنٹہ کے بنسبت تھے۔ بھوک بھی بری لگی ہوئی ہے کھانے کو بھی کچھ نہیں لائے سوچا ٹرمینل سے ہی کچھ لے لیں۔

بس کے انجن کی آواز آئی اور ہمارا آگے کا سفر شروع۔ ہمارا اگلا سٹاپ رحیم یار خان ٹرمینل ہے اور آگے کا سفر 3 گھنٹے پر مشتمل ہے ۔ آدھی رات ہو چکی ہے کچھ بھی کرنے کو نہیں تھا۔ جائے چلے تھوڑی دیر آرام فرماتے ہیں۔ مجھے تو سفر میں نیند ہی نہیں آتی بیچینی سے کبھی یہاں دیکھوں کبھی وہاں دیکھوں ۔ ہر طرف کھیت کھلیان ہیں۔اور ان کھیتوں میں کچے پکے گھر ہیں جن میں لالٹین جل رہی ہے۔یوں ہی باہر دیکھتے ہوئے، کھیتوں کو دیکھتے ہوئے، کچے پکے گھروں کو دیکھتے ہوئے سو سوالوں کو سوچتے ہوئے ہوئے بہت سی باتوں کو سر پر سوار کرتے ہوئےیونہی رات کا سفر گزارتے ہوئے ہم اپنے آگے ٹرمینل  پہنچ ہی گئے۔ایسے کرکے ہمارا وہاں آدھے گھنٹے کا اسٹاپ ٹھا آدھا گھنٹہ گزرتے ہی ہم اپنے اگلے اسٹاپ کی جانب نکل پڑے جو کہ ملتان ٹرمینل تھا۔ ملتان ٹرمینل پہنچتے پہنچتے فجر ہو چکی تھی، سردیوں کا موسم تھا بس کی کھڑکیاں اُوس سے  بڑھ چکی تھی۔ یہاں مزے کا حادثہ ہوا دن کا وقت تھا روشنی بھی تھی ہم لوگوں کا پندرہ منٹ کا أسٹاپ تھا وہاں۔ نیلا نیلا اسمان سفید بادلوں سے بھرا ہوا مشرق سے نکلتا ہوا سورج۔

معمول کے مطابق ہم اپنے سٹاپ سے جیسے ہی نکلے کچھ دیر بعد راستے میں ہمیں موٹروے والوں نے روک دیا۔ان کے مطابق ہماری  بس کواس روڈ پر چلنے کا روٹ پرمٹ حاصل نہیں تھا۔ اور یہ ہمارا کراچی سے راولپنڈی ”حیدرآباد تا ملتان“ میں ختم ہوگیا۔ سفر یہیں ختم نہیں ہوامزید آگے تھا پراس کے بعد جلدی سے بس راولپنڈی پہنچنا تھا تاکہ یہ سفر مزیدامتحان نہ لے۔

Practical work Under supervision of Sir Sohail Sangi 

No comments:

Post a Comment