Showing posts with label Dadu Hospital. Show all posts
Showing posts with label Dadu Hospital. Show all posts

Sunday 31 January 2021

Sarfraz Noor IR Dadu Hospital

Department of Media.  University of Sindh

Investigative Reporting 

Under supervision of Sir Sohail Sangi 

By Sarfraz Noor 

۔ تعمیر کب شروع ہوئیَ  یہ واضح نہیں کہ کتنا حصہ بنا ہے یا عمارت میں کیا کیا تعمیر ہوا ہے 

انٹروکو دلچسپ اور معلوامتی ہونا چاہئے 

  املا کی بہت ساری غلطیاں۔ انویسٹیگیشن رپورٹ کسی چیز کو بے نقاب کرتی ہےَ بنیادی سوال کا جواب ہے؟

 Investigation Report-Sarfaraz Noor/2K20/MMC/50

750 words with photos

دادو میں بننے والی 435 بیڈز پر محیط ہسپتال نو سال سے عدم توجہ کی شکار

ڈسٹرکٹ دادو (یا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر دادو) میں تعمیر ہونے والی 435  بیڈز پر مشتمل،شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے منصوب سرکاری ہسپتال پچھلے نو سال سے انتظامی نااحلی کی وجہ سے پایہء تکمیل تک نہ پنہنچ پائی۔تعمیراتی کام نو سال سے معطل جبکہ متعلقہ حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے تعمیر شدہ عمارت بھی خستہ حال دکھائی دینے لگی۔

یاد رہے کہ اس ہسپتال کا بنیاد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابقہ صدر پاکستان آصف علی زردادری نے اسلام آباد سے سال 2010 میں بذریعہ وڈیو لنک کیا تھا  تاہم یہ منصوبہ منظر عام پر سال 2012 میں آیااور اسے لگ بھگ دو سال کے عرصے میں مکمل ہونا تھا تاہم نو سال سے زائد عرصہ گذرنے کا باوجود بھی یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہ ہوسکا۔ منصوبہ 15 ایکڑ پر محیط وسیع العرض زمین پر بنایا جانے والا تھا جو کہ سندھ حکومت کی جانب سے خریدی گئی تھی، جس میں 435 بیڈ پر مشتمل وارڈز اور 16 بلاکس بنائے جانے والے تھے۔ پورے منصوبے کی کل لاگت دو ارب منظور ہوئی تھی جبکہ چار ارب سے زائد لاگت ہونے کے باوجود یہ منصوبہ تا حال نامکمل اور کتوں بلیوں اور دیگر جانوروں کے گھر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود حکام کی طرف سے کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ وہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس وقت دادو شہر میں ہستال کی اشد ضرورت ہے لیکن اگر یہ منصوبہ زیادہ عرصہ عدم توجہ کا شکار رہا تو ایک دن زمین بوس ہوکر تاریخ کا ایک نامکمل حصہ بن کر رہ جائیگا۔ 

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس دادو کے چیئرمین زاہد ڈاوچ نے بتایا کہ ہسپتال ان کے انڈر کور نہیں بلکہ کراچی کے کسی انڈس ادارے کے ذمے دی گئی ہے اور ان کی انتظامیہ ہسپتال کو سنبھال رہی ہے، اس کی بجٹ محکمہ صحت سے آتی ہے اور اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ انڈس ہاسپیٹل کی انظامیہ ( سنجیدہ معاملہ ہے۔ نامعلوم ذرائع نہیں دے سکتے، ) سے بات کرتے ہوئے پتہ چلا کہ اگر اس منصوبے کی بجٹ دو ارب منظور ہونے کے باوجود چار ارب سے اوپر چلی گئی ہے تو انہیں نہیں لگتا کہ یہ ہسپتال کبھی مکمل بھی ہو پائیگی۔

ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر دادو سمیع اللہ کے ساتھ گفتگو سے پتہ چلا کہ ان کی پوسٹنگ حال ہی میں دادو میں ہوئی ہے اور فی الوقت اسے اس منصوبے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں۔ 

منصوبے کے مکھیہ ٹھیکیدار لالا نے بتایا کہ اس منصوبے میں صرف ہو ایک اکیلا ٹھیکیدار نہیں بلکہ 18 سے 20 اور بھی ہیں جو کہ الگ الگ کاموں کے لئے مخصوص کئے گئے تھے جن میں بلاکس، بجلی، پانی، چھتوں،ٹائیل کے کام شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بجٹ رلیز نہیں ہوتی۔مزید یہ کہ اس منصوبے کے بجٹ دو ارب سے بڑھ گئی ہے کیونکہ مٹیریل کے نرخ میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور جب تک انہیں بجٹ نہیں ملتی  وہ  کام نہیں کرینگے۔ 

سماجی کارکن مزمل علی نے بتایا کہ بہت سے مزدوروں نے ہسپتال کے منصوبے پر ارتقائی مرحلے سے کام کیا تھا لیکن حکومت کی نا اہلی اور عدم توجہ کے باعث مزدور بچارے اپنی تنخواہ کے منتظر ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ کچھ ٹھیکیداروں نے غبن کر کے پیسے ہڑپ لئے ہیں۔ 

سابقہ ایم پی اے دادو رشیدہ پنہور اور کلثوم چانڈیو نے کہا کہ اس وقت صورتحال کو سمجھنا بہت مشکل ہے جب تک کہ حکومت آپسی سہمتی سے کوئی فیصلہ نہیں لیتی۔جبکہ ایم این اے رفیق احمد جمالی نے بتایا کہ انہوں نے وقتافوقتا اعلی حکام کو اس بارے میں آگاہی دی ہے اور ہو اس منصوبے میں پیش آنے والی مشکلات کے سامنے کے لئے مزید کوششیں کرتے رہینگے اور کروڑوں روپے کہاں خرچ ہوئے اس حوالے سے بھی احتساب کمیٹی بٹھائی جائے گی۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھاکہ سندھ حکومت کی رف سے فنڈز وغیرہ رکے ہوئے ہیں اور ڈسٹرکٹ دادو میں ایم ی اے اور ایم این اے کے درمیان اختلافات بھی اس منصوبے کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

اس ہسپتال کے منصوبے اور حکومتی نااہلی کو بارہا میڈیا میں مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے اچھالا گیا لیکن ابھی تک کوئی مثبت راہ عمل حکام کی طرف سے نظر نہیں آیا۔دادو کے شہریوں نے بار بار حکومت اور انتظامیہ کے آگے ہسپتال کو مکمل کرنے کے مطالبے رکھے ہیں تاکہ شہریوں کو بر وقت بہتر طبی سہولتیں میسر ہو سکیں۔